khurram jamai ke mazameeN

MomiN ka libas
اللہ تعالیٰ اور جناب محمد الرّسول اللہ  ؐ کے ارشادات و فرامین کے بارے میں ایک مسلمان کا یہ یقین ہو، جس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے
» اِنَّمَا کَاَنَ قَوْلَ المُؤمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓااِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ أَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ۔ وَ اُولٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ«( سورۃ النور:۱۵)’’ مومنین کی یہ بات ہیکہ وہ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ ان میں فیصلہ کریں تو کہیںہم نے حکم سن لیااور مان لیا، اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
    جو کوئی انسان احکام کو جانتے ہوئے عمل نہیں کرتا ،اور کسی بھی عمل کو معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے تو یہ بہت بڑا جرم ہے ، جو کہ عذاب الہیٰ کا سبب بن سکتا ہے چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہی:
» وَ تَحْسَبُوْنَہُ ھَیِّناً وَّھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْم «( سورۃ النور :۵۱) ’’ اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے تھے ، اور اللہ کے نزدیک بڑی بھاری بات تھی ‘‘
     مسند احمد میں عبادہ بن قرط ؓ  کا ایک قول منقول ہے وہ کہتے ہیںکہ’’تم بعض کاموں کو بال سے بھی زیادہ معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتے ہو اور انہی باتوں کو نبی کریم  ؐ کے زمانہ میں ہلاک کرنے والی چیزوں میں شمار کیا کرتے تھے ‘‘ اس قول سے معلوم ہو ا کہ دین کی ہر بات کو اہم سمجھا جائے ۔
    ہم آج کے مسلم سماج کو دیکھتے ہیں تو بڑا تعجب ہوتا ہے کہ ہم نے زندگی کے تمام شعبے جات میں اسلام کو نظر انداز کردیا ہے ، لباس کے معاملے میں تو امت کی خواتین اور مردوں نے تمام حدود کو پار کردیا ہی، مردوں کا یہ حال ہے کہ ریشم کا لباس پہننے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہو رہی ہے ، زعفرانی رنگ کے لباس نوجوانوں میں عام ہوتے جارہے ہیں ، پینٹ ، شلوار، اور تہبند اس طرح پہنتے ہیں کہ ٹخنوں سے نیچے لباس لٹکا رہتا ہے ، چوڑی دار پائجامہ اور جینس پینٹ تو قدموں میں لڑتے رہتے ہیں ، حالانکہ یہ تمام چیزیں حرام ہیں ، جب اصلاح کی جاتی ہے اور روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تو فیشن ہے ، یہ فلاں نے پہنا ہے ، اس میں کیا برائی ہے ، یہ تو معمولی بات ہے ، اسلام پر عمل مشکل ہے ، اس طر ح عمل کرنے سے لوگ اچھا نہیں سمجھتے وغیرہ ،یہ سب بہانے ہیں ۔
    تھوڑا غور تو کرو! جب ہم رب ذو الجلال کے دربار میں جائیں گے تو کیا جواب دیں گے ؟ کیا نبی  ؐسے بڑھ کر کوئی نمونہ ہو سکتے ہیں ، کیا اسلام کے طریقہ سے بڑھ کر کوئی طریقہ ہو سکتا ہے ؟ زندگی اب تو گزر جائے گی ، موت کے بعد کیاہوگا ؟ !!!ذیل میں چند احادیث بیان کئے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔
پائجامہ ، پینٹ، اور تہبند باندھنے کا مقام:(۱) »عن حذیفۃ قال : أخذ رسول اللہ ؐ بعضلۃ ساقی۔ فقال ھذا موضع الازار، فان أبیت فاسفل من ذالک، فان أبیت فلا حق  للازار فی الکعبین «( مسند احمد،ابن ماجہ)’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ  نے میری پنڈلی کا گوشت والا پٹھا پکڑا اور فرمایا کہ یہ چادر کی جگہ ہی، اگر نیچے ہوجائے تو گنجائش ہے لیکن ٹخنوں پر چادر کا کوئی حق نہیں ‘‘۔
 (۲) »عن المغیرۃ بن شعبۃ ؓ قال: رأیت النبی ؐ أخذ بحجز  سفیان بن سھل الثقفی ّ فقال یا سفیان بن سھل : لا تسبل ازارک فانَّ اللہ لا یحب المسبلین«  ( مسند احمد)
’’ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم  ؐ کو دیکھا ، آپ  ؐ نے سفیان کا کولہا پکڑکر کہا : اے سفیان بن سھل! اپنی چادر نہ لٹکاؤ کیونکہ ٹخنوں سے نیچے چادر لٹکانے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا ‘‘ ۔
تکبر اور بغیر تکبرسے کپڑ ے لٹکانا: (۱) حضرت سالم بن عبد اللہ اپنے والد عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ؐ نے فرمایا : » بینما رجل یجر ازارہ  خسف بہ فھو  یتجلجل  فی الارض یوم القیامۃ «( صحیح بخاری، سنن نسائی) ’’ ایک آدمی اپنی چادر لٹکا کر چلا آرہا تھا کہ وہ زمین میں دھنسا دیا گیا بس وہ قیامت تک یونہی زمین میں غوطے کھاتا رہے گا‘‘
(۲)حضرت عبد اللہ بن عمر  ؓسے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ  ؐ نے فرمایا :» لا ینظر اللہ الی من جر ثوبہ خیلا«( صحیح البخاری) ’’ اللہ تعالی اس شخص کی طرف کبھی بھی (نظر رحمت سی) نہیں دیکھے گا جس نے تکبر کی وجہ سے اپنا کپڑا لٹکا یا ‘‘۔ 
تکبر کیا ہے : رسول اللہ  ؐ نے ابو جری جابر بن سلیم ہجیمی ؓسے کہا :» وایاک و تسبیل الازار فانہ من الخیلاء و الخیلاء لا یحبہا اللہ عزوجل«( مسند احمد)’’ اپنے آپ کو چادر لٹکانے سے بچاؤ کیونکہ یہ تکبر ہے اور اللہ عزوجل متکبرین کو پسند نہیں کرتا‘‘
رسول اللہ  ؐ کا کپڑا نصف پنڈلی تک تھا :رسول اللہ  ؐ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا : ’’ اِرْفَعْ اِزَارَکَ فَاِنَّہُ اَتْقَیٰ وَ اَبْقَیٰ‘‘ اپنی چادر اونچی کرو ،یہ زیادہ تقوی والا کام ہے اور چادر صاف اور زیادہ دیر تک محفوظ رہے گی ،عبیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پیچھے دیکھا تو آواز دینے والے رسول اللہ  ؐتھے ۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول  ؐ !’’ اِنّمَا ھِیَ بُرْدَۃ مَلْحَائ‘‘ یہ تو دھاری دار (لنگی) ہی۔ تو آپ  ؐ نے فرمایا : ’’ اَمَا لَک فیَّ أسْوَۃ‘‘ کیا میں تمہارے لئے نمونہ نہیں ہوں ۔ صحابیؓ کہتے ہیں : ’’ فَنَظَرْتُ فَاذَا اِزَارَہ الٰی نِصْفِ سَاقَیْہِ‘‘میںنے رسول اللہ ؐ کی ازار کو دیکھا تو دونوں پنڈلیوں کے نصف تک تھی۔( شمائل ترمذی )
ٹخنے سے نیچے لٹکے کپڑ  ے کو کاٹ دینا: » عن خَرْشَۃ أنَّ عُمَر رضی اللہ عنہ دَعَا بِشَفرَۃ فَرَفَعَ اِزَار رجل عَنْ کَعْبَیْہِ ثَمَّ قَطَع  مَا کَانَ اسْفَل مِن ذَالِک : قَالَ : فَکَأَنّیْ انظر الی ذَبَابِہِ تَسِیْلُ عَلی عَقِبَیْہِ«( مصنف ابن ابی شیبہ )’’ جناب خرشہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قینچی منگوائی اور ایک آدمی کی ازار ( چادر) ٹخنوں سے اوپر رکھ کر نیچے جتنی تھی سب کاٹ دی ‘‘۔ 
ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی سزا: (۱)» عن ابی ذر رضی اللہ عنہ عن النبی ؐ قال : ثَلَاثَۃ لَا یُکَلِّمُھُمْ اللّہُ یَوْم القِیَامۃِ  وَلَا یَنْظُر اِلَیْھِم وَلَا یُزَکِّیْھِم  وَ لَہُم عَذاب اَلِیم فَقَرأھا رسول اللہ ؐ ثَلَاث مَرّات  : قَالَ ابو ذر ؓ: خَابُوْا وَ خَسِرُوا مَنْ ھُمْ یَا رَسُول اللہ ؐ قَالَ : المُسْبِل و المَنَّان و المُنفق سلعتہ  بَالْحَلفِ الکَاذِب «( مسلم، ابوداؤد، ابن ماجہ) حضرت ابو ذر ؓ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ؐ نے ارشاد فرمایا : ’’ تین آدمی ہیں ، جن سے اللہ تعالی قیامت کے دن کلام نہیں کرے گااور ان کی طرف نظر نہیں کرے گا ،اور ان کو گناہوں سے پاک نہیں کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہی، یہ کلمات رسول اللہ  ؐ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائے ۔ حضرت ابو ذرؓ نے پوچھا یہ لوگ نامراد ہوگئے اور نقصان اٹھایا ، اللہ کے رسول ؐ یہ لوگ کون ہیں ؟ رسول اللہ ؐ نے جواب دیا ایک تو چادر ، تہبند،شلوار لٹکانے والا ، دوسرا’’ احسان جتلانے والا ، تیسرا ’’ جھوٹی قسم سے مال فروخت کرنے والا ‘‘۔
(۲) »عَن عَاءِشۃ رضی اللہ عَنْہَا تَقُوْل : قَال رسول اللہ ؐ : مَا تَحْت الکَعْبِ مِنَ الِازَارِ فِی النَّارِ« ( مسند احمد) ’’ حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا :’’ جو ٹخنے سے نیچے چادر ہوگی پس وہ (حصہ) آگ میں (جلایا) جائے گا ‘‘۔
    میرے مسلمان بھائیو! ان تمام ارشادات کی روشنی میں ہم اپنی اصلاح کرلیں ، اور اپنے کپڑوں کو ٹخنوں سے اوپر بانھیں اس میں ہماری دنیا اور آخرت کی بقا ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں حسن عمل کی توفیق دے ( آمین )
کتاب و سنت کی روشنی میں ’’مؤمن کا لباس‘‘
مضمون نگار :
محمد عبد الرحیم خرم جامعی

1 comment: